خواب کی تعبیر بتانے کا صحیح وقت کون ساہے؟

Khwab ki tabeer btane ka best time konsa he

علما فرماتے ہیں کہ خوابوں کی تعبیر بتانے کا صحیح وقت صبح فجر کے بعد طلوع آفتاب سے قبل ہے؛ اس لیے کہ اس وقت تعبیر بتانے کے لیے ذہن حاضر ہوتا ہے اور خواب سنانے والے کو بھی خواب اس وقت خوب اچھی طرح یاد ہوتا ہے ۔ اس وقت تعبیر بتانا اس وجہ ا اس وجہ سے بھی بہتر ہے کہ حضور ﷺ  نے اس وقت کے لیے برکت کی دعا کی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں ” اللهم بارِكْ لِأُمَّتِيْ فِي بُكُورِهِم“۔ (ترجمہ: اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے)۔

خواب کی تعبیر قیاس اور اندازہ لگانا ہی ہے اس لیے اس پر مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، اگر اس کی تعبیر بیداری میں صریح طور پر سامنے آ جائے پھر تو اور بات ہے ۔ خواب کی تعبیر کبھی اس کے معنی و مفہوم اور بھی نام کے اشتراک کے اعتبار سے بھی ہوتی ہے۔ اور تعبیر دینے والے کو تعبیر کے سلسلے میں قرآن کریم کے الفاظ، معانی، اشعار، امثال، علمِ لغت و اشتقاق کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح لوگوں کے خواب کو سمجھنے اور درست تعبیر دینے کے لیے تعبیر بتانے والے کے حال اور کھانے پینے کی اشیاء کا صحیح ہونا اور خالص ہونا بھی ضروری ہے۔

سچے خواب کی قسمیں

سچا خواب دو قسموں پر مشتمل ہے۔ (۱) پہلی قسم وہ واضح خواب ہیں جن کی تعبیر و تفسیر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے۔ (۲) دوسری قسم : جس کی تعبیر پوشیدہ اور خفی ہوتی ہے جس میں بہت ساری حکمتیں مخفی ہوتی ہیں ۔

صحیح خواب کے اوقات

پھول اُگنے اور پھل پکنے کے موسم میں خواب عموماً سچے ہوتے ہیں۔ اور موسم سرما میں دیکھے جانے والے خواب تعبیر کے اعتبار سے عموماً کمزور ہوتے ہیں ۔ اسی طرح دن میں دیکھے جانے والے خواب رات کے خوابوں کے مقابلے میں تعبیر کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔

لوگوں کے حالات کے اعتبار سے تعبیر بھی مختلف ہوتی ہے

خواب کی تعبیر لوگوں کے احوال، ہیئت، پیشے، مرتبے اور دین کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے؛ چنانچہ ایک ہی خواب ایک کے لیے رحمت اور دوسرے کے لیے عذاب کی علامت ہوتا ہے۔ تعبیر بتانے والے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تعبیر کے سلسلے میں مشکل پیش آ جائے وہاں غور و فکر سے کام لے اور یہ نہ کہے کہ اس کی تعبیر کو میں نہیں جانتا بلکہ خاموش رہے؛ چنانچہ امام محمد بن سیرین﷫  جو اس فن میں لوگوں کے امام تھے، اکثر خوابوں کی تعبیر کے بارے میں خاموش رہتے، اور چالیس خوابوں میں سے کسی ایک کی تعبیر بیان کرتے۔

تعبیر سے بھی خواب کی حقیقت بدل جاتی ہے

بُرا خواب بھی اچھی تعبیر سے خیر میں تبدیل ہوسکتا ہے اور اسی طرح اچھا خواب بُری تعبیر سے شَر کی طرف تبدیل ہو سکتا ہے۔ اور اگر خواب کسی فحش کام پر دلالت کرتا ہو تو تعبیر بتانے والے کے لیے مناسب ہے اس کو چھپائے اور اچھے الفاظ سے اس کو صرف صاحب خواب ہی کو بتائے ، دوسروں کو نہ بتائے ۔

کن لوگوں کے خواب سچے ہو سکتے ہیں

بادشاہوں کے خواب اکثر سچے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سچ بولنے والوں کے خواب بھی سچ ہوتے ہیں ۔ اور اگر خود تو سچ نہیں  بولتا مگر دوسروں کے جھوٹ بولنے کو نا پسند کرتا ہے تو اس کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں، مگر خود جھوٹ بولنے کے ساتھ دوسروں کے جھوٹ بولنے کو نا پسند بھی نہیں کرتا تو اس قسم کے لوگوں کے خواب سچے نہیں ہو سکتے ہیں ۔

تعبیر بتانے کے آداب

تعبیر بتانے والا تعبیر بتانے کے معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لے جب تک کہ اس خواب کے تعلق تمام معلومات فراہم نہ کرے ۔ مثلاً صاحب خواب کی ہیئت، مرتبہ ذات، حالت، قوم، پیشہ اور معیشت وغیرہ کے بارے مکمل معلومات حاصل کر لے، حتی کے تعبیر کے معاون تمام احوال سے باخبر ہو۔ اگر معلومات نہ ہوں تو اپنی رائے میں اظہار اور غور و فکر سے کام لے، چنانچہ حضرت امام محمد بن سیرین ﷫ سے منقول ہے کہ اگر کسی خواب کی تعبیر ان کے لیے مشکل ہو جاتی تو دن کا کچھ حصہ شہر جاتے اور صاحب خواب سے اس کی حالت، پیشہ، معیشت اور اس کی قوم کے بارے مکمل معلومات لیتے پھر خواب کی تعبیر بیان کرتے۔

کس کے سامنے خواب بیان نہیں کرنا چاہیے؟

خواب دیکھنے والے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنا خواب حاسدوں کے سامنے بیان نہ کرے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا تھا ﴿لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخوتِكَ ﴾ (ترجمہ: اپنا خواب بھائیوں کو نہ بتانا)۔ اسی طرح کسی جاہل کے سامنے بھی بیان نہ کرے۔ اور کسی تعبیر بتانے والے کے سامنے اپنا خواب اکیلے میں بتا دے ۔ کسی بچے یا عورت کے سامنے بھی بیان نہ کرے۔

خواب کی تعبیر میں کس بات کا اعتبار ہوتا ہے؟

خواب کی تعبیر میں ظاہر کے مقابلے میں خیال کا اعتبار ہوتا ہے اور تعبیر کی بنیاد خیال ہوتا ہے ۔

مثلاً ایک آدمی خواب میں دیکھتا مینڈک ہے، مگر اپنے دانست و خیال میں اس کو سانپ کہتا ہے، یا دیکھتا سانپ ہے مگر اپنے دانست مینڈک خیال کرتا ہے، تو تعبیر اس خیال کے مطابق ہوگی، ظاہری شکل کے اعتبار سے تعبیر نہیں ہوگی ۔ اسی طرح مسلمان، کا فر، مستور الحال (ایسا شخص جس کے حالات معلوم نہ ہوں) اور فاسق کے خوابوں کی تعبیر میں فرق ہوتا ہے ۔ مثلا کسی مستور الحال مسلمان نے خواب دیکھا کہ وہ شہد کھا رہا ہے تو تعبیر ہے کہ وہ حلاوت قرآن اور ذکر قلبی سے مستفیض ہوگا۔ اور یہی خواب اگر کا فرد یکھے تو یہ اس کے لیے دنیاوی حلاوت کی علامت ہے۔

خواب اپنی تعبیر کے ساتھ موقوف ہوتا ہے

اسی طرح خواب اپنی تعبیر کے ساتھ معلق اور اس پر موقوف ہوتا ہے۔ جب اس کی تعبیر سامنے آجائے گی تو وہ واقع ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ”الرؤيا على جناح طائر فحيث قصت وقعت“ خواب گویا پرند ے کے پر کے ساتھ معلَّق ہے ، جوں ہی بیان ہو گا واقع ہوگا)۔

تعبیر  کے اصول سمجھے بغیر خواب کی تعبیر نہیں دی جاسکتی

 تعبیر کے اصول سمجھے بغیر خواب کی تعبیر نہیں دی جا سکتی ۔ مثلاً گندم، جو، دودھ، اون، لوہا، نمک اور مٹی وغیرہ اموال پر دلالت کرتے ہیں ۔ اور شہر، بھٹی، پہاڑ، درخت، پرنده، وحشی جانور وغیرہ کی تعبیر مرد ہے۔ اور اس طرح زین یا پالان، شلوار، مؤنث چرند وپرند کی دلالت عورت پر ہوتی ہے۔ بچھونے، تکیے، چھاگل، لوٹے وغیرہ خادموں اور نوکروں پر دلالت کرتے ہیں ۔ اسی طرح کسی چیز سے اتر نا مرتبہ سے نیچے آنے کی دلیل ہے۔

تعبیر بتانے والوں کے طبقات

حسن بن حسین الخلال ﷫ نے اپنی کتاب طبقات المعبرين “ میں تقریبا ساڑھے سات ہزار (۷۵۰۰ ) معبرین کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں سات سو کا تذکرہ اس طرح کیا ہے کہ چھ سو کے صرف نام اور ایک سو کے تفصیلی حالات درج کئے ہیں جنہوں نے فن تعبیر میں کلام کیا ہے کتابیں لکھیں یا اس فن کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کو پندرہ طبقات میں تقسیم کیا۔

پہلا طبقہ: حضرات انبیاء علیہم السلام کا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ذوالقرنین علیہ السلام، اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ۔

دوسرا طبقہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے، ان میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبد اللہؓ، حضرت عبداللہ بن سلامؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت سلمان فارسی ؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت اسماءؓ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔

تیسرا طبقہ : حضرات تابعین کا ہے جیسے حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن بصری، حضرت عطاء بن ابی رباح، حضرت امام شعبی، حضرت امام ابن شہاب زہری، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت قتادہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت طاوس، حضرت ثابت بنانی رحمہم اللہ ۔

چوتھا طبقہ: فقہاء معبرین کا ہے۔ جیسے ابو ثور، امام اوزاعی، سفیان ثوری، امام شافعی، امام قاضی ابو یوسف، ابن ابی لیلی، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، امام بویعلی، منصور بن معتمر، عبد اللہ بن مبارک رحمہم اللہ تعالیٰ ۔

پانچواں طبقہ : ان معبرین کا جن کا تعلق زُہّاد سے ہے۔ جیسا محمد بن واسع، تمیم داری، شفیق بلخی، مالک بن دینار، سلیمان النجمی، رضوان عمار، محمد بن سماک،یحیی بن معاذ، احمد بن حرب ۔

چھٹا طبقہ : ان معبرین کا ہے جن کا تعلق اس فن کے مصنفین سے ہے جیسا امام محمد بن سیرین، ابراہیم بن عبد المالک الکرمانی، عبد الله بن مسلم القتیبی ، ابو احمد خلف بن احمد محمد بن حماد الرازی الخباز، حسن بن حسین خلال اور طاسیہ درس الیونانی ۔

ساتواں طبقہ: ان معبر ین کا ہے جن کا تعلق فلاسفہ سے ہے جیسے افلاطون، مہر ادریس، ارسطاطا لیس، بطیلوس، یعقوب بن اسحاق الاسکندری، ابو زید البلخی۔

آٹھواں طبقہ: ان معبرین کا ہے جن کا تعلق اطباء سے ہے جیسے کہ جالینوس، بقراط،یحثیشوع، اہران، محمد بن زکریا الرازی وغیرہ۔

نواں طبقہ: ان معبرین کا ہے جن کا تعلق یہودیوں سے ہے جیسے حسین بن اخطب، کعب بن اشرف، موسى بن یعقوب وغیرہ۔

دسواں طبقہ : ان معبروں کا ہے جن کا تعلق عیسائیوں سے ہے جیسے حسین بن اسحاق المز جم، ابو مخلد، زید الطبری ۔

گیارھواں طبقہ : ان معبرین کا ہے جن کا تعلق مجوس سے ہے جیسا کہ ہرمز بن اردشیر، برز جمہر بن پختکان، نوشیروان الملک العادل کشموز، جاسب –

بارھواں طبقہ : ان معبروں کا ہے جن کا تعلق مشرکینِ عرب سے ہے جیسا کہ ابو جہل بن ہشام ، عبداللہ ابن ابی نوفل بن عبد الله، عمر ابن عبدو، ابن زبعری (ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ فتح مکہ کے موقع پر مشرف با سلام ہوئے تھے )، ابو طالب، ابو العاص ۔

تیرہواں طبقہ: جو کاہنوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، جیسا سطیح ، وشف خزرجی، عوسجہ، قطامی، ابوز را وغیرہ۔

چودھواں طبقہ: ساحروں سے متعلق معبرین کا ہے جیسا کہ عبداللہ بن ہلال، قرط بن زید ایلی، عتاب بن شمر الرازی۔

پندرھواں طبقہ : جو اصحاب فراست ہیں، جیسے سعید بن سنان، ایاس بن معاویہ، جندل بن محکم، معاویہ بن کلثوم ۔

Tags: khwab ki tabeer,khwab nama, sacha khwab, bura khwab, khwab nama

error: Content is protected !!
Scroll to Top